ان دنوں پورن سائٹس کو لیکر ایک تنازعہ چھڑا ہوا ہے۔ حکومت ہند نے فیصلہ کیا ہے کہ انٹر نیٹ پر پورن(فحاشی) سائٹس پر پابندی لگادی جائے اس لئے سرکار نے857 فحاشی ویب سائٹ پر روک لگانے کا حکم دیا ہے۔ ایک افسر نے بتایا کہ الیکٹرانک اور انفارمیشن ٹکنالوجی محکمے نے انٹرنیٹ سروس فراہم کنندگان سے857 فحاشی ویب سائٹ پر روک لگانے کو کہا ہے۔ فیصلے کے پیچھے اسباب بیان کرتے ہوئے افسر نے بتایا کہ سرکار نے محض سپریم کورٹ کی ہدایت کی تعمیل کی ہے۔ عدالت ہذا نے فحاشی موا د پر روک لگانے کو کہا ہے۔حالانکہ اس نے یہ بھی کہا کہ کیونکہ معاملہ بیحد پیچیدہ ہے، ایسے میں غیر سرکاری انجمنوں ،سماج اور والدین وغیرہ بچوں کو صلاح دینے والوں ، آئی ایس پی اور سرکار کوشامل کرکے معاملے کو مفصل طور پر سنا جائے اور سبھی نظریات کے آنے کے بعد عدالت اپنی گائڈ لائنس دیں۔ ان پورن سائٹوں پر پابندی لگانے سے کچھ لوگوں میں عجب طرح کی بے چینی اور بحث سامنے آنے لگی ہے۔ ایک طرف طرح طرح کے پیغام اور کمنٹس کے ذریعے سرکار کی اس پابندی کوغلط بتایا گیا ہے تو وہیں اس قدم کی تعریف کرنے والے بھی کم نہیں تھے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کے لئے پورن فلم دیکھنا ایک عادت بن چکی ہے یعنی انہیں فحاشیت دیکھنے کی لت لگ چکی ہے۔ ٹھیک اسی طرح کی لت جیسے شراب یا سگریٹ کی ہوتی ہے۔ یہ کوئی بیماری نہیں ہے۔ پورن دیکھنا گناہ نہیں ہے لیکن اس کی لت بری ہے۔ ایک پورن سائٹ کے ذریعے سال کے آغاز میں کئے گئے ایک سروے میں ایک شخص اوسطاً 8 منٹ22 سیکنڈ تک فحاشی فلم دیکھتا ہے اس وقت دنیا میں پورن دیکھنے والوں کا موازنے سے لگتا ہے کہ محض 33 سیکنڈ کم ہے۔ کچھ لوگ فیصلے کی تنقید کررہے ہیں ، جن کی دلیل ہے پورنو گرافی دیکھنے سے روکنے سے شخصی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔پورنو گرافی اور جنسی جرائم میں کوئی سیدھا رشتہ کسی بھی اسٹڈی سے ثابت نہیں ہوا، ان کا کہنا ہے سپریم کورٹ نے بھی پورن پر پابندی لگانے کا حکم دینے سے انکار کردیاتھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اگر کوئی جوان لڑکا یا لڑکی بند کمرے میں پورن فلم دیکھتا ہے تو اسے روکنا اس کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ حالانکہ یہ انترم حکم تھا۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے انٹرنیٹ پورن کے خلاف سخت قانون کی وکالت کی تھی اور سرکار کی رائے مانگی تھی، لیکن پورن سائٹ پر پابندی سے انکار کیا تھا۔ یہ کہنا غلط ہے کہ پورنو گرافی سے کوئی سماجی و ثقافتی مسئلہ وابستہ نہیں ہے۔ پورن کے حمایتی مانتے ہیں کہ بچوں کو لیکر بنائی گئی پورنو گرافی ایک جرائم ہے اور اسے روکنے کا کوئی طریقہ ہونا چاہئے۔ اعدادو شمار بتاتے ہیں کہ انٹر نیٹ پر دستیاب پورن میں سے تقریباً 20 فیصد ی چائلڈپورنو گرافی ہے۔ اس میں جنسی مظاہرہ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ یہ بھی دیکھنا گیا ہے کہ ایسے پورن فلم میں12 سال سے کم عمر کے بچوں اور خاص کر لڑکیوں کا استعمال ہوتا ہے۔ اطفال جنسی استحصال اور چائلڈ پورنو گرافی ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اس لئے روکنا ضروری ہے۔ ہندوستان میں پورن دیکھنے کا ٹرینڈ تیزی سے بڑھ رہا ہے اس وقت پورن دیکھنے کے معاملے میں بھارت کا مقام دنیا میں چوتھا ہے اور موبائل پر پورن دیکھنے کے معاملے میں ہندوستان تیسرے نمبر پر ہے۔ پورن روکنا بہت مشکل ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں تقریباً4 کروڑ پورن سائٹیں ہیں ان پر نگرانی رکھنا کچھ حد تک چین جیسے ملک میں ہی ممکن ہے۔ چین حکومت اپنے شہریوں پر کنٹرول رکھنے کے لئے اناپ شناپ پیسہ اور وسائل خرچ کرتی ہے پھر بھی اسے جزوی کامیابی ہی ملتی ہے۔ مرکزی حکومت نے پورن ویب سائٹوں پر لگی روک کے فیصلے میں تھوڑی تبدیلی دیکھتے ہوئے صرف ان پورن سائٹوں کو بین کرنے کا فیصلہ لیا ہے جن میں بچوں سے جڑی پورن مواد ہے ساتھ ہی سرکار نے ان ویب سائٹوں پر پابندی ہٹانے کی ہدایت دی ہے جن پر کوئی پورن مواد نہیں تھا۔ مرکزی حکومت نے کہا ہے وہ اس معاملے میں اب نئے سرے سے جائزہ لے گی۔ تازہ فیصلے کے مطابق اب ان 857 میں محض80 ویب سائٹوں پر پابندی رہے گی۔ بین لگائے جانے کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ انٹر نیٹ پر ان ویب سائٹوں تک پہنچنا بہت مشکل ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم نے انٹر نیٹ پر پورن دیکھنے کی کوشش ہی نہ کریں۔ فی الحال تو ضرورت اس بات کی ہے اس کے لئے مسلسل بہتر طریقے تلاش کئے جائیں۔
(انل نریندر)
No comments:
Post a Comment