دیش کو ناگا سمجھوتے کا نایاب تحفہ سونپنے کیلئے مرکزی حکومت خاص کر وزیر اعظم نریندر مودی کا شکریہ۔ انگریز جاتے جاتے ہمارے لئے ایسا پینچ پھنسا گئے تھے کہ ہم دہائیوں سے اس میں الجھ رہے تھے۔ دراصل آزادی کے بعد سے ہی ناگا کے قریب آدھا درجن برادریاں مل کر ناگالنگم نام سے الگ دیش بنانے کی مانگ کررہے تھے۔ پیر کو نریندر مودی سرکار اور این ایس سی این (آئی اے ایم) نے سمجھوتے کے ذریعے چھ دہائی پرانی انتہا پسندی کا سیاسی حل نکالنے میں کامیابی حاصل کرلی ہے۔سمجھوتے سے پہلے پی ایم مودی نے ٹوئٹ کرکے کہا کہ پورا دیش پیر کو ساڑھے چھ بجے ایک تاریخی لمحے کا گواہ بننے والا ہے۔ مرکزی حکومت نے ناگالینڈ کی انتہا پسند تنظیم نیشنل سوشلسٹ کونسل آف ناگالینڈ (رساف موئیبہ) کے ساتھ سمجھوتہ کر اشارہ دیا ہے کہ وہ ناگالینڈ سمیت پورے شمال مشرق میں شانتی قائم کرنے کو لیکر سنجیدہ ہیں۔ وزیر اعظم کی نظر میں یہ ایک تاریخی معاہدہ ہے۔ ہمارے دماغ میں انگریزوں نے ناگاسماج کی جو بدامنی والی ساکھ قائم کردی تھی اس سے بھی نکلنے میں ہمیں خاصا وقت لگا ہے۔ نارتھ ایسٹ ریاستوں پر گہری نظر رکھنے والے چین نے بھی اس مسئلے کو الجھائے رکھنے میں کافی پسینہ بہایا ہے۔ اس علاقے کے باغیوں کو ہتھیار سپلائی کرنے میں چین کی خاصی دلچسپی سامنے آتی رہی ہے، حالانکہ پوچھے جانے پر وہ سیدھے طور پر انکار کرتا رہا ہے۔ اس معاہدے کو شکل لینے میں قریب دو دہائی لگے ہیں اور جس میں سابقہ کانگریس سرکار کا بھی اہم کردار رہا ہے۔ منموہن سنگھ سرکار نے اگر پہل کی ہوتی تو یہ کارنامہ اس کے کھاتے میں جا سکتا تھا۔ لیکن اس نے تو ایسی دلچسپی نہ دکھائی اور نہ ہی وقت پر زوردار فیصلے ہی لے پائے۔ قریب تین دہائی پہلے 1986 میں راجیو گاندھی کے وقت شمال مشرق کے انتہا پسند گروپ میزو نیشنل میں اس وقت قومی سکیورٹی مشیر اجیت ڈوبھال نے اہم رول نبھایا تھا۔ ناگاؤں کی انتہا پسند تنظیم این ایس سی این (آئی ایم) کے ساتھ سمجھوتے میں اجیت ڈوبھال حالانکہ سرکاری مذاکرات کار کے طور پر سرگرم تو نہیں تھے لیکن بات چیت کی صورت اور سمت مقرر کرنے کا کام وہی کررہے تھے۔ اس باغی گروپ سے بات چیت کے لئے مقرر مذاکرات کار آر این روی ان کی ہی پسند تھے۔ ان کی تقرری کے وقت ہی یہ صاف ہوگیا تھا کہ نتیجے جلد آ جائیں گے۔ میزو نیشنل فرنٹ سے معاہدے کے وقت اجیت ڈوبھال شمال مشرق میں انٹیلی جنس بیورو کا کام دیکھ رہے تھے۔ وہیں میزو نیشنل فرنٹ کے کمانڈروں کے بیچ اپنا دبدبہ قائم کرنے اور ان کے بھروسے کو جیتنے میں کامیاب تھے۔ جب میزو نیشنل فرنٹ کے 8 کمانڈر سمجھوتے کے لئے راضی ہوگئے تو اس کے نیتا لال ڈونگا کو نہ چاہتے ہوئے بھی امن سمجھوتے کے لئے راضی ہونا پڑا۔سمجھوتے کے بعد انہوں نے کہا تھا میں کیا کروں میرے ساتھی تو ڈوبھال کے ساتھ ہو لئے تھے ڈوبھال کی کوششوں سے میزورم کو 20 سال سے چلی آرہی انتہا پسندی سے نجات ملے گی۔ اس موقعے پر ہمیں سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی جی کو بھی یاد کر لینا چاہئے جنہوں نے کوہیما جاکر وہاں کی مقامی زبان سے اپنے خطاب کا آغاز کر لوگوں کا دل جیت لیا تھا۔ ان کی اسی روایت کو مودی نے بھی اپنے نرالے انداز میں دوہراتے ہوئے قبول کیا کہ ناگا فرقے کی انوٹھی شخصیت اور ترقی یافتہ کنبہ جاتی روایت سے پورے دیش کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم سمجھتے ہیں ناگالینڈ کی اکثریت اس معاہدے کا خیر مقدم کرے گی اور ساتھ دے گی لیکن کھاپ لان جیسے دوسرے باغی گروپ اس سمجھوتے کی مخالفت کریں گے اور ان کے حملے جاری رہ سکتے ہیں۔ مودی سرکار کو خاص کر اجیت ڈوبھال کو ان کو بھی امن کے راستے میں لانے کیلئے چنوتی اب بھی ہے۔ بیشک اس سمجھوتے سے تھوڑی شانتی ضرور ہوگی لیکن مسئلے کا مکمل حل تبھی مانا جاسکتا ہے جب ناگالینڈ کے باقی گروپوں کو امن کی ٹیبل پر لایا جائے گا۔
(انل نریندر)
No comments:
Post a Comment