Thursday 6 August 2015

بات چیت کی آڑمیں پاکستان کودوہرے کھیل کی اجازت نہیں!

پاکستان سے رشتے بہتر بنانے کی خوش فہمی یوپی اے سرکار کی طرح مودی سرکار بھی پال رہی ہے۔ خبر آئی ہے کہ ایک بار پھر بھارت سرکار کے سکیورٹی مشیر اجیت ڈوبھال اور ان کے پاکستانی ہم منصب سرتاج عزیز کے مابین مجوزہ بات چیت23-24 اگست کے آس پاس ہونے کا امکان ہے۔ دراصل گورداس پور حملے کے باوجود وزیر اعظم مودی کا خیال ہے کہ پاکستان میں جمہوری طریقے سے چنی گئی نواز شریف سرکار کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آتاکہ ایسی بات چیت کا کیا فائدہ ہے تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے۔ ہم لاہور بس لے کر گئے تو جواب میں کارگل ملا۔ کچھ ہی ہفتے پہلے روس کے شہر اوفا میں نریندر مودی نے نواز شریف سے ہاتھ ملانے کی پہل کی جواب میں ضلع گورداس پور کا واقعہ ملا۔ بھارت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے پاکستان میں اصل طاقت پاک فوج کے پاس ہے۔ نواز شریف تو خود اسلام آباد سے باہر فوج کی مدد کے بغیر نہیں نکل سکتے۔ایک طرف پاک فوج ۔ آئی ایس آئی تو دوسری طرف یہ جہادی تنظیمیں۔ دونوں کبھی نہیں چاہیں گی کہ دونوں ملکوں کے رشتے بہتر ہوں۔ دراصل بھارت کو پاکستان سے سب سے بڑی شکایت یہ ہی ہے کہ وہ اپنی سرزمین سے دہشت گردی کو بڑھاوا دیتے ہے۔ 
ان جہادی تنظیموں کو اپنی زمین کا استعمال کرنے دیتے ہیں اور یہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ ہمارے فوجیوں کے سرکاٹ کر ان سے فٹبال کھیلتے ہیں اور ہم سوائے چھٹی موٹی دھمکیوں کے علاوہ کوئی تشفی بخش جوابی کارروائی نہیں کرتے۔ 56انج کی چھاتی سے جنتا کو یہ امید نہیں تھی کہ بھارت کو باہمی بات چیت تبھی آگے بڑھانی چاہئے جب اس کی طرف سے بھی خوشگوار ماحول بنے۔ پاکستان کے ساتھ باہمی بات چیت پر پانی پھیرنے کے ساتھ باہمی کرکٹ رشتوں کی بحالی پر بھی خدشات کے بادل چھا گئے ہیں۔ بھارتیہ کرکٹ کنٹرول بورڈ (بی سی سی آئی) کے سکریٹری انوراگ ٹھاکر نے کہا کہ ہندوستانیوں کی جان زیادہ اہم ہے۔ آتنکی واقعات کے ساتھ ساتھ کرکٹ سیریز نہیں کھیلی جاسکتی۔ ہم اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔ خفیہ اطلاع سے پتہ چلتا ہے کہ یوم آزادی سے پہلے لشکر طیبہ بڑے آتنکی حملے کی تیاری کررہا ہے۔ ظاہر ہے ان کے اس حوصلے مند منصوبوں کے پیچھے پاکستان کی درپردہ حمایت ہے۔ بیشک پاکستان کی سول حکومت امن چاہتی ہو لیکن پاک فوج اور آئی ایس آئی اور دہشت گرد تنظیمیں ایسا نہیں ہونے دینا چاہتیں۔ اگر پاکستان نواز شریف سرکار اپنی فوج اور ان جہادی تنظیموں پر روک لگانے میں ناکام ہے تو ایسی سرکار سے کی گئی بات چیت اور سمجھوتے کی قیمت کیا رہے گی؟ ہم پڑوسی سے امن چاہتے ہیں لیکن اپنے بہادروں کی شہادت کی قیمت پر نہیں؟
(انل نریندر)

No comments:

Post a Comment