Sunday, 27 November 2016

نہ بینکوں میں بھیڑ گھٹی نہ جنتا کی تکلیفیں گھٹیں، بڑھی ہے تو صرف سیاست

500اور 1000 روپے کے نوٹوں کی واپسی کے فیصلے پر حکمراں فریق اور اپوزیشن آمنے سامنے آچکی ہیں۔ وزیر اعظم دعوی کررہے ہیں کہ ان کی جانب سے ایپ کے ذریعے سے مانگی گئی رائے میں اب تک5 لاکھ میں سے 93 فیصدی لوگوں نے نوٹ بندی کے فیصلے کو صحیح مانا ہے۔ نوٹ بندی پر سیاسی واویلا رکنے کے بعد وزیر اعظم نے منگل کو ایک موبائل ایپ کے ذریعے سے عام جنتا سے اس بارے میں رائے دینے کوکہا تھا۔ اس سلسلے میں عوام سے 10 سوالوں کا جواب دینے کی اپیل کی گئی تھی۔ بدھوار کو ٹوئٹ پر جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 90 فیصد سے زیادہ نے نوٹ بندی کی حمایت کی ہے جبکہ صرف 2 فیصد نے اسے نا مناسب بتایا۔ نوٹ بندی کو لیکر پی ایم مودی کے ذریعے کرائے گئے سروے کو اپوزیشن نے یوں تو مسترد کردیا ہے لیکن اس سروے کو لیکر سیاسی اور سرکاری گلیاروں میں مباحثے جاری ہیں۔ اپوزیشن کو بحث کے ساتھ ساتھ تشویش بھی ہے کہ اگر یہ سروے صحیح میں ٹھیک ہے تو وزیر اعظم کی مقبولیت آسمان چھونے لگے گی۔ نوٹ بندی کے بعد اتنی پریشانیوں کے باوجود پی ایم کے تئیں لگاؤ اور کریز بنے رہنے کا توڑ کیا ہے؟ وہیں اپوزیشن یہ بھی مانتی ہے کہ سروے فرضی ہے۔ یہ بھی کہ بی جے پی کے 10 کروڑ ممبر دیش بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ان ممبروں میں سے خاص کو ہی ایپس کا جواب دینے کے لئے لگایا گیا تھا اس لئے ایک ہی دن میں 5 لاکھ لوگوں نے اس میں حصہ لے لیا اور اس میں 93 فیصد نے پی ایم کے نوٹ بندی کے قدم کو پسند بھی کرلیا؟ کانگریس کے قومی سکریٹری جنرل اور مدھیہ پردیش کے سابق وزیر اعلی دگوجے سنگھ نے کہا ہے کہ500 اور 1000 روپے کے نوٹ بند ہونے سے دیش میں نہ تو کرپشن بند ہوگا اور نہ دہشت گردی و جعلی نوٹوں کا دھندہ اور نہ ہی کالا دھن بند ہوگا۔ انہوں نے کہا پچھلے 17-18 دنوں کے اندر کالا دھن رکھنے والا کوئی شخص بینک میں لائن میں کھڑا دکھائی نہیں دیا۔نئے نوٹ سے رشوت لینے کا دھندہ کافی سرگرم ہے۔ کل ہی ایکسس بینک کا منیجر ساڑھے تین کروڑ روپے کے پرانے نوٹ بدلنے کے عوض رشوت لیتے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے۔ جموں و کشمیر میں پچھلے دنوں مارے گئے آتنکیوں کے پاس سے دو دو ہزارکے چار نوٹ برآمد ہوئے ہیں۔ جعلی نوٹوں کا دھندہ کرنے والے آج بھی اپنا کاروبار چلانے میں مصروف ہیں۔ جو لوگ مودی کی تعریف کریں انہیں تو دیش بھکت سمجھا جاتا ہے اور جو نہیں کررہے ہیں انہیں باغی کہا جارہا ہے۔ نوٹ بندی پر وہ شخص کھل کر بولے جو برسوں خاموش رہنے کے لئے مشہور ہیں۔ میں بات کررہا ہوں سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی۔ عام طور پر خاموش اور سنجیدہ رہنے والے سابق وزیر اعظم اور دنیا کے مشہور ماہر معاشیات منموہن سنگھ نے راجیہ سبھا میں بیٹے مودی سے کہا کہ نوٹ بندی بدنظمی کی جیتی جاگتی علامت بن گئی ہے۔ انہوں نے نوٹ بندی کو سرکار کی طرف سے منظم اور لوٹ قراردیا ہے۔ معیشت کے ماہر منموہن سنگھ نے مودی کو آگاہ کیا کہ نوٹ بندی کے فیصلے سے دیش کا جی ڈی ٹی 2 فیصدی تک گر گیا ہے۔ انہوں نے پی ایم سے پوچھا کہ کیا پی ایم اس دیش کا نام بتائیں گے جہاں نقدی جمع کرنے پر روک نہیں ہے۔ لیکن نقدی نکالنے پر روک ہے۔ اس کے بعد مایاوتی ایک قدم اور آگے بڑھ گئیں۔ مودی کے ایپ سروے پر طنز کرتے ہوئے بسپا چیف نے پی ایم مودی کو چیلنج دے ڈالا کہ وہ اگر اپنے سروے پر بھروسہ کرتے ہیں تو نوٹ بندی کے اشو پر ہی صحیح معنی میں لوگوں کے نظریات جاننا چاہتے ہیں تو لوک سبھا بھنگ کرکے نئے چناؤ کرائیں۔ بہن جی نے نوٹ بندی پر پی ایم کے سروے کو غلط بتاتے ہوئے کہا کہ یہ سروے نقلی اور اسپانسرڈ ہے۔ سپا نیتا نریش اگروال نے کہا نوٹ بندی کا فیصلہ اترپردیش کے چناؤ کے پیش نظر لیا گیا ہے اور دوسرے دیشوں میں جہاں بھی ایسافیصلہ لیا گیا ہے وہاں کے تاناشاہوں نے فیصلہ لیا ہے۔ جنتا اس فیصلے سے پریشان ہے اور چناؤ میں جنتا اس کا ضرور جواب دے گی۔ نوٹ بندی کے نفع نقصان پر چل رہی بحث کے درمیان سماج کا ایک ایسا طبقہ بھی ہے جو اس فیصلے سے صرف اور صرف مسئلے ہی جھیل رہا ہے۔ دہاڑی مزدور، ریڑھی ،ٹھیلی یا فٹ پاتھ پر سامان بیچنے والا چھوٹا تاجر ہو یا پھر گنگا کنارے 10 روپے میں مچھلی کا دانا بیچنے والا ہو، ان سبھی کا کام دھندہ چوپٹ ہوگیا ہے۔ نوٹ بندی کے سبب دہاڑی مزدوری کرنے والوں کی زندگی مشکل ہوگئی ہے۔ روزانہ کام کی تلاش میں مزدوروں کا میلہ لگتا ہے۔ پہلے تو مزدوروں کی اتنی مانگ تھی کہ آدھے گھنٹے میں ہی سبھی کو مزدوری مل جاتی تھی لیکن نوٹ بندی کے بعد آدھے مزدوروں کو کام نہیں ملتا۔ ان کے سامنے روزی روٹی پر مشکل آ کھڑی ہوئی ہے۔ ہمارے دیہات میں کسان اس لئے پریشان ہے کہ پرانی کرنسی سے اسے بیج نہیں مل رہا ہے۔ بہت سی جگہوں پر سرکاری احکامات پہنچے نہیں ہیں تاکہ وہ بیج کے لئے پیسہ نکال سکیں۔ سرکار کے حکم کے باوجود 500-1000 کے نوٹ پر کسانوں کو کھاد بیج ملنے سے پریشانی آرہی ہے۔ سرکاری اداروں سے کسانوں کو کہیں نہ کہیں 500 کے نوٹ پر آسانی سے خرید بیج مل رہا ہے لیکن کہیں کہیں سرکار کی گائڈ لائن نہ آنے کا حوالہ دے کر پرانے نوٹ نہیں لئے جارہے ہیں۔ یہی صورتحال ڈیبٹ کارڈ اور کسان کریڈٹ کارڈ کو لیکر بھی یہ افواہ ہے یا سچ ہے سرکار کو بدنام کرنے کی سازش ہے؟ لیکن بازار میں کرنسی خوب چل رہی ہے۔باقی کے دھندے بیشک کمزور ہوںیہ دھندہ تیزی پکڑ چکا ہے۔ 10 لاکھ کے 7 لاکھ روپے ملیں گے۔ 13 لاکھ دو تو 10 لاکھ لے لو۔ ٹھگی کرنے والے الگ سے سرگرم ہیں۔ کچھ لوگ پکڑے بھی گئے ہیں۔ واقف کاروں کے مطابق پرانے نوٹ بدلنے کا کام بازار میں زوروں پر چل رہا ہے۔ شروع میں 20 پرسنٹ کم پر نوٹ بدلنے کا ریٹ تھا ۔ پھر یہ 25-30 ہوا اب یہ 35-40 فیصد ہوگیا ہے ۔ یعنی 100 روپے 60 روپے ملیں گے۔ یہ سب دھندہ چل رہا ہے۔ نئے نوٹ کہاں سے آرہے ہیں؟ جانکار مانتے ہیں کہ یہ بینکوں کے کچھ ملازمین اور دیش میں کئی مقامات کے چیسٹ ملازمین کی ملی بھگت سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ اس طرح لگتا ہے کہ نوٹ بندی کے فوراً بعد ہی کالا دھن کمانے کا ذریعہ کچھ لوگوں نے بنا لیاہے۔ دہلی پولیس کی کرائم برانچ کے ایک افسر نے بتایا پرانے نوٹوں کی شکل میں موجودہ کالادھن دھڑلے سے سفید کیا جا رہا ہے۔ بڑے پیمانے پر حوالہ کاروباری سرگرم ہیں۔ ممبئی، دہلی میں کچھ بینک ملازمین کی مدد سے حوالہ کاروباری آرام سے پرانے نوٹوں کو نئے نوٹ میں بدلوا رہے ہیں۔ سونے میں بھی کالا دھن کھپایا جارہا ہے۔ فی الحال تو یہ نوٹ بندی نہیں ہے ، یہ نوٹ بدلی ہے۔ اس میں شبہ ہے کہ اس طرح نہ تو کالا دھن بند ہوگا اور نہ ہی کرپشن۔
(انل نریندر)

No comments:

Post a Comment